امن اور عدم تشدد
ماخام خٹکامن اور عدم تشدد ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ امن کے ساتھ اگر بد کا سابقہ لگاگر “ن” کے ساتھ چھوٹی “ی” کا اضافہ کر دیا جائے اور تشدد سے عدم کا سابقہ ہٹا دیا جائے تو دونوں الفاظ اس سے پہلے جو معنی دے رہے تھے وہ بالکل نہیں دیں گے اور دونوں بدامنی اور تشدد پر اتر آئیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امن اور تشدد انسان کی فطرت میں ہیں یا یہ جبر و اختیار کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں؟
یہ بات تو طے ہے کہ امن انسان کی فطرت کا حصہ ہے کیونکہ انسان کی تخلیق یا پیدائش یہ واضح کرتی ہے کہ وہ امن پسند ہے کیونکہ انسان کی تخلیق کا جو مادہ ہے وہ مادے کی تین صورتوں میں سے ایک صورت “مائع” کی ہے اور دوسرے جب وہ اس روئے زمین پر آتا ہے تو وہ مہا کا نحیف، کمزور، معصوم، بے بس و لاچار، نہتا اور دوسروں پر انحصار کرنے والا ہوتا ہے تو یہ امن انسان کی فطرت کا جز ہے جبکہ تشدد انسان کی فطرت کا حصہ نہیں، یہ انسان اس دنیا کے لوگوں کے رویوں، امتیازات، اختیارات، جبر اور طاقت کے غلط استعمال کے نتیجے میں اپنی عادات، اطوار، مزاحمت، اور دفاع کی صورت میں اپناتا ہے جن کو بعد میں موقع محل کے ساتھ مختلف ناموں، القابات، خطابات، الزامات اور خرافات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ تشدد، امن کی سرحدات اور مقبوضات کے چھیڑنے، ادھیڑنے، جکڑنے، پکڑنے، ہتھیانے اور لٹانے کے نتیجے کی دین ہے۔ امن کے لفظ کا آغاز ہی الف سے ہونے اور مختصر ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ لفظ خود میں مکمل اور پورا ہے۔ امن کو کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کچھ نہیں ہوتا ہے وہی امن ہوتا ہے۔ امن کا کسی چیز سے تعلق نہیں ہوتا، ہر چیز کا تعلق امن سے ہوتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ، ادھیڑ کدھیڑ، جکڑنے پکڑنے، ہتھیانے لٹانے کے بغیر بھی امن خود کو قائم کر سکتا ہے جبکہ یہ سب مل کر بھی امن کو قائم نہیں رکھ سکتے۔ کسی کے وسائل دبانا، کسی کے مسائل بڑھانا اور کسی کے اختیارات چھیننا اور ان پر دھونس دھمکی اور بزور شمشیر اپنا اثرو رسوخ بڑھانا ازخود تشدد کو ابھارنا ہے۔ تشدد کسی انہونی چیز کا نام نہیں۔ متشدد کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ تشدد کا تعلق کسی نظام سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانی رویوں میں پنہاں ہوتا ہے جو ان کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک فلسفہ ہے کہ کیا شیر بھی پرامن ہو سکتا ہے؟ اگر شیر پرامن ہو جائے تو وہ تو بھوک سے مر جائے گا۔ اور کیا بھیڑ یا بکری بھی متشدد ہو سکتی ہے؟ اور اگر بھیڑ یا بکری متشدد ہو جائے تو انسانی المیہ پیدا ہو جائے گا۔ دنیا ہمیشہ سے دو قوتوں کے درمیان تقسیم ہوتی چلی آئی ہے، ایک غالب اور دوسرے مغلوب، غالب تشدد کرتا ہے اور مغلوب تشدد سہتا ہے، یا باالفاظ دیگر پرامن رہتا ہے، لیکن جب کبھی اس پرامن قوت کو موقع ملا ہے تو پھر یہ تشدد پر اتر آیا ہے اور غالب مغلوب ہو کر پرامن مفکورے کا حامی نظر آیا ہے۔ تو اس تمام بحث کا حاصل یہ کہ حضرت انسان برخود فطرتاً متشدد واقع نہیں ہوا ہے، بنیادی طور پر یہ پرامن ہے لیکن طاقت، اقتدار، زور، وسائل اور توسیع پسندانہ رویوں نے اسے متشدد، غاصب، غالب، قاتل، جابر، آمر اور انتہاپسند بنایا ہے۔ لیکن دوسری جانب وسائل، طاقت، زور، اقتدار، توسیع پسندانہ رویہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ متشدد، غاصب، غالب، قاتل، جابر، آمر اور انتہاپسند انسان پرامن ہے۔ باچا خان ہماری دھرتی کے اس فلسفے کے روح رواں تھے اور اب بھی لاکھوں لوگ ان کے اس فلسفے کے پرچارک ہیں لیکن باچا خان کا ایک مقبول اور منقول قول ہے: اگر آپ نے کسی کو ناپنا یا جاننا ہو کہ وہ کتنا ترقی یافتہ اور عدم تشدد کا علمبردار ہے تو دیکھیں کہ ان کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔ میرے خیال سے اگر ہم ان کے اسی ایک قول پر بھی خود کو تولیں تو ہم من حیث القوم ایک شیرشاہی کے برابر بھی نہیں، گو کہ انھوں نے یہ بات اپنے ہی گھر سے شروع کی تھی اور کر کے دکھایا بھی۔ آئیں آج ہم بھی یہ عہد کریں اور اپنے ہی گھر سے اس عمل کی شروعات کریں اور پہلے پہل اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ، کم از کم ان کے جائز حقوق پر تو ان کا راستہ نہ روکیں، ان کے خلاف متشدد نہ بنیں اور ان کا وسیلہ یا ساتھی بن کر امن کے فطری علمبردار ہونے کا ثبوت دیں۔