رواداری کی اہمیت اسلام کی روشنی میں

پیر فاروق بہائوالحق شاہ

اسلام، زندگی گزارنے کے اس طریقہ کا نام ہے جو خاتم النبیین ۖسے پہلے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کا تھا،اور بعدمیں آنے والی تمام انسانیت کا رہے گا،اسی طریقہ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا میں نبیوں کا طویل سلسلہ قائم کیا گیا جس طرح کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا جس کا حکم نوح کو دیا گیا،اور جس کی وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی،اور جس کا حکم موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف برپا مت کرو۔(شوریٰ:31)

ایسا دین جو ہمیشہ سے سارے انبیائے کرام کا ہے اور جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے،اسی کا نام اسلام ہے۔

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔(آل عمران:19)

ایسے عالمگیر دین میں زور زبر دستی کی گنجائش نہیں، ہر پسند اور کامیاب طریقہ کے انتخاب میں لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے، تاکہ اندازہ ہو کہ کون صحیح راستہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط۔

اے نبی آپ کہہ دیجیے یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے،اب جس کا جی چا ہے مان لے جس کا جی چاہے انکار کر دے،ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے۔ (الکہف:92)

اوپر درج کی گئی آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا، بلکہ تمام آسمانی مذاہب اور کتب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں اور اپنے مذہبی عقائد کے متعلق عبادت کریں۔ اسلام،یہودیت اور عیسائیت کی طرح اپنا دروازہ طالب ہدایت کے لیے بند نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت کھلا رکھتا ہے، مگر کسی بھی غیر مسلم کو جو مسلم حکومت کے زیرنگیں زندگی گزار رہا ہو، مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اسلام قبول کرلے،قرآن کریم میں واضح حکم ہے:

دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔

سورة النحل میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:

اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی باتوں کے ذریعے بلائو اور بہت پسندیدہ طریقے سے بحث کرو۔

اسلام اس حد تک رواداری اور برداشت کا قائل ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی:

مسلمانو! جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں،انہیں برا نہ کہو، یہ لوگ نادانی سے خدا کو برا کہنے لگیں گے۔ (سورة الانعام)

نیزفرمایا گیا:

جس نے اس کے رسولۖ کی ہدایت کے مطابق سیدھی راہ اختیار کی، وہ تو اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے اور جو بھٹکا،وہ بھٹک کر اپنا ہی راستہ کھوٹا کرتا ہے۔

سورة بنی اسرائیل میں موجود آیات طیبات کا مفہوم ہے:

جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے وہ اپنے نفع کے لیے راہ پر چلتا ہے اور جو شخص بے راہی اختیار کرتاہے سو وہ بھی اپنے نقصان کے لیے بے راہ ہوتا ہے۔

ان آیتوں سے واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ روگردانی کرنے والوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے،ان پر کوئی زور، جبر اور زبردستی نہ کی جائے۔

پاکستان قائد اعظم کے ویژن کے مطابق رواداری کے اصول پر قائم ہے۔قائد اعظم کے پاکستان میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کی اجازت نہیں۔بلکہ تمام شہریوں کو بطور شہری برابر حقوق حاصل ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو۔یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔اس امر میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ اسلام رواداری،امن و سلامتی اور احترام ِ انسانیت کا داعی ہے۔۔قرآن و سنت میں واضح کیے گئے اصولوں کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملّت عزت ومساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یکساں حیثیت کا حامل ہے۔اسلامی ریاست میں مملکت کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوں،عقیدہ اور مذہب کی تفریق کے بغیر پوری طرح آزاد ہیں۔ان پر مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی جبر و زبردستی نہیں ہوگا۔کسی کے ساتھ صنف کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاے گا۔یہی رواداری کی بہترین مثال ہے۔اور یہ نظریہ رواداری اسوۂ رسولۖ کے عین مطابق ہے۔

پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا۔

(الزلزال: ٧،٨)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں۔

(الترمذی: ٢٦٢٧)

دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔

(البقرۃ: ٢٥٦)