مذہبی شدت پسندی

طاہر یوسف

بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان کی ابتدا اِس بنیادی اصول سے کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی ریاست کے شہری اور مساوی حقوق رکھنے والے ہیں۔

دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی حیثیت سے ہندو، ہندو ہی رہیں گے اور مسلمان مسلمان رہیں گے کیونکہ یہ ایک فرد کا ذاتی عقیدہ ہوتا ہے لیکن سیاسی اعتبار سے ہم ریاست کے مساوی حقوق کے حامل شہری ہوں گے۔

آج آزادی کے 74 برس بعد ہم قائدِ اعظم کے فرمودات کو نظر انداز کرنے کی مسلسل قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کو مغربی دنیا انتہا پسندی کا گڑھ قرار دے رہی ہے۔ حال ہی میں جس طرح اسلام آباد اور سندھ میں ہندوؤں کے مندروں میں توڑ پھوڑ ہوئی، وہ ایک یاد دہانی تھی کہ مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج ہمارے خیال کے مقابلے میں کہیں بڑا ثابت ہوسکتا ہے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ مذہبی طور پر متعصب طبقہ دوسروں کے نظریات کو سننے اور ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ یہ انتہائی اور شدت پسندانہ نظریات کسی بھی ملک کے امن کیلئے خطرہ ہوتے ہیں جن کے باعث عدم استحکام، انتشار اور بالآخر خانہ جنگی و تباہی پھیل سکتی ہے۔

شدت پسندی ایک کینسر کی مانند ہے کیونکہ یہ مستقبل میں تباہی بن کر سامنے آسکتی ہے جو ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے۔ عراق، شام، یمن اور لبنان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مذہبی انتہا پسندوں کے فرقہ وارانہ تنازعات نے ممالک تباہ کردئیے۔

دوسری جانب پاکستان کا طاقتور طبقہ مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی آراء کے تنوع کو دیکھنے کی بجائے اپنی حکومت آگے بڑھانے کیلئے مذہبی، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے میں مصروف ہے۔ ہزارہ میں کوئلے کے کان کنوں کے بہیمانہ قتل کا دعویٰ داعش نے کیا جس سے ان کی مہلک صلاحیت اور پاکستان میں موجودگی ظاہر ہو گئی ہے۔

اسلام تشدد یا قتل کی اجازت نہیں دیتا، نہ ہی اس کا کوئی جواز پیش کرتا ہے۔ دراصل اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ شخص کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔اسلام ہمیں مزید تعلیم یہ دیتا ہے کہ اگر آپ دوسروں پر رحم کریں گے تو اللہ آپ پر رحم فرمائے گا۔

مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کیلئے ہمارے نوجوانوں کا برین واش کیا جاتا ہے جس کے خلاف اگر مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو ہمارا معاشرہ مکمل طور پر بنیاد پرست معاشرہ بن سکتا ہے۔ ہمیں پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کیلئے اجتماعی اقدامات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔

اسی دوران متشدد انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے خلاف قومی بیانیے پر عملدرآمد اور انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کیلئے ایک کمیشن قائم کرنے کا سرکاری فیصلہ پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک اہم اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔

ملک بھر میں تمام مذہبی اقلیتوں کو تشدد سے بچانے کیلئے دو اہم کام ضروری ہیں۔ پہلا یہ کہ ان گروہوں اور شخصیات سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے جو سیاسی و مذہبی اثر رسوخ کیلئے عقیدے کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسرا یہ ہے کہ ریاست انتہا پسند مذہبی گروہوں کے ذریعے نفرت انگیز بیانیے کے خلاف کسی بھی قسم کی لچک نہ دکھائے اور اسے سختی سے مسترد کردیا جائے۔