اسلام میں جان کی قیمت
حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی کو اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہے۔حقوق اللہ کا تعلق اللہ تبارک و تعالی کی ذات سے ہے ، مثلا اللہ پر ایمان لانا ، اس کی عبادت کرنا اور اس کی اطاعت وفرماں برداری کرناوغیرہ۔ہر انسان پر لازمی ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کرے ۔ لیکن جو شخص حقوق اللہ کو نظرانداز کرے گا اور ان کی تکمیل نہ کرے گا ، اس کا ٹھکانہ برا ہوگا ، البتہ جو لوگ صاحب ایمان ہونگے ، ان کے لیے اللہ کی ذات سے معافی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ اللہ کی ذات بڑی کریم و رحیم ہے ، وہ بہت زیادہ معاف کر نے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔
جہاں تک حقوق العباد کی بات ہے تو یہ اسی وقت معاف ہونگے ، جب کہ وہ شخص جس کے حقوق مارے گئے ہونگے ، وہ معاف کر دے۔ اس اعتبار سے حقوق العباد کی تکمیل کا معاملہ بھی انتہائی اہم ہے۔ چاہے وہ والدین کے حقوق ہوں ، پڑوسی کے حقوق ہوں یا اعزو اقارب اور دوست و احباب کے حقوق یا محلہ والوں کے حقوق ہوں یا عام انسانوں کے حقوق ہوں ۔ حقوق العباد کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور اس دائرہ میں اپنے اور پرائے ، مسلمان اور غیر مسلمان سبھی آتے ہیں ، یہ ایک الگ بات ہے کہ بعض کے حقوق زیادہ ہیں اور بعض کے نسبتاً کم ، البتہ جو حقوق جس کے لیے متعین کیے گئے ،ان کی تکمیل لازمی ہے اور ان سے غفلت پر سخت گرفت ہے ۔
دین اسلام کے پیش نظر کیونکہ پوری انسایت ہے ، اس لیے وہ اپنے پیروکاروں کو صرف رشتہ داروں یا مسلمانوں کے حقوق تک محدود نہیں رکھتا ، بلکہ تمام انسانوں تک اس دائرہ کو وسیع کر تا ہے ۔ ایسے عام حقوق میں جان کی حفاظت اہم ہے ۔ یعنی جان چاہے مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی حتی الوسع اس کا تحفظ لازم ہے ۔ در اصل انسانی جان کی اللہ کے نزدیک بڑی قد ر وقیمت ہے ، پھر انسا ن کی تخلیق محض اللہ تعالی نے کی ہے ، اس لیے کسی دوسرے شخص کو ہرگز اس بات کی اجاز ت نہیں دی گئی کہ وہ کسی انسان کی جان لے ۔یہاں تک کہ خود انسان کواپنی جان لینے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
کسی انسان کی جان لینا اسلام کے نزدیک کتنا قابل گرفت عمل ہے ، اس کا اندازہ نبی علیہ الصلوة والسلام کی اس حدیث سے ہوتا ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا ، وہ نماز ہے جس کے بارے میں باز پر س کی جائے گی اور حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل کے دعووں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
کسی انسان جان کی ہلاکت کو عظیم گناہ کے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا:
بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا ہے، پھر کسی انسان کو ہلا ک کر نا ہے، پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، پھر جھوٹ بولنا ہے۔
اس حدیث میں قتل کے گناہ کو شرک کے بعد بیان کیا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ عظیم گناہوں میں شرک تو سب سے بڑا گناہ ہے ہی ، مگر شرک کے بعد جو بڑے گناہ ہیں ، ان میں کسی انسانی جان کو ہلا ک کرنا سر فہرست ہے ۔
انسانی جان کے اس قدر اہم ہونے کے سبب اسلام نے اس کی حفاظت کی پوری کو شش کی ہے ۔ چنانچہ یہ قانو ن بنا دیا گیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کی ہے تو اس بات کا پورا نظم و نسق کیا جائے گا کہ انسانی جان برباد نہ ہوپائے ۔ چاہے وہ مسلم کی جان ہو یا کافر کی جان ۔ اسلامی تعلیم ہے کہ انسانی جان کی حفاظت کی جائے اور کسی کو قتل نہ کیا جائے ۔
ارشاد باری ہے:
انسانی جان کو ہلاک نہ کرو ، جسے خدانے حرام قرار دیا ہے۔ ( بنی اسرائیل:33)
علماء نے اس متعلق وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ”ہر امن پسند غیر مسلم کے خون کی قیمت مسلمانوں کے خون کے برابر ہے ، اس لیے اگر کوئی مسلمان کسی پُرامن غیر مسلم کو قتل کر دیتا ہے تو اس کا قصاص اس طرح لیا جائے گا، جس طرح ایک مسلمان کے قتل کا لیا جاتا ہے۔” گویا کہ جان کے تحفظ کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان دونوں برابر ہیں ، جس طرح ایک مسلمان کی حفاظت ضروری ہے ، اسی طرح ایک غیر مسلم کی جان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
قتل و قتال سے دین اسلام نے ہرحال میں روکنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ بد امنی اور خوں ریزی کا سلسلہ طویل ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ قتل وقتال سے سختی کے ساتھ منع کر تا ہے ۔