اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، دہشت گردی کا نہیں
ڈاکٹر صہیب احمد شکیل احمد خاندورِ حاضر کے ذرائع ابلاغ دہشت گردی کا لفظ بکثرت استعمال کررہے ہیں اور بعض سیاسی عناصر یہ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش بھی کررہے ہیں کہ نعوذ باللہ! اس کا رشتہ اسلام سے ہے، جبکہ تشدد اور اسلام میں آگ اور پانی جیسا بیر ہے، جہاں تشدد ہو وہاں اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی طرح جہاں اسلام ہو وہاں تشدد کی ہلکی پرچھائیں بھی نہیں پڑسکتی۔ اسلام امن وسلامتی کا سر چشمہ اور انسانوں کے مابین محبت اور خیر سگالی کو فروغ دینے والا مذہب ہے، جس کی بابت اللہ رب العزت خود فرماتا ہے:
’’اے مومنو! امن و سلامتی میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر کچھ یو ں حکم دیتا ہے:
اور زمین میں اس کی درستگی کے بعد فساد مت پھیلاؤ۔ (الاعراف :۵۶)
جبکہ تشدد کا خمیر ظلم و جور اور وحشت سے اُٹھتا ہے اور خونریزی وغارت گری سے اس کی کھیتی سیراب ہوتی ہے۔ کائنات کے جملہ ادیان ومذاہب میں انسانی جان کے احترام و وقار اور امن و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کو اولیت دی گئی ہے، الحمد للہ! اس سلسلے میں اسلام کا درجہ سب سے عظیم ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور جس کا خون کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو،ہاں! مگر حق کے ساتھ۔ ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے، تاکہ سمجھو۔ (الانعام:۱۵۱)
ان واضح اسلامی تعلیمات کے فیض سے دنیا میں انسانی جان کے تحفظ کا حیرت انگیز منظر سامنے آیا اور دنیا میں بڑی بڑی سلطنتوں کے اندر انسانی جان کی ناقدری کے خوفناک واقعات اور ہولناک تماشوں کے سلسلے اسلام کی آمد کے بعد موقوف ہوگئے اور دہشت وخونریزی سے عالم انسانیت کو نجات ملی، انہیں تعلیمات کے باعث ایک مختصر مدت میں عرب جیسی خونخوار قوم تہذیب وشرافت کے سانچے میں ڈھل گئی اور احترامِ نفس وامن و سلامتی کی علمبردار ہوکر دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئی، جس کا نقشہ قرآن کریم نے کچھ اس طرح کھینچا ہے:
اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔(آل عمران:۱۰۳)
آج انہیں اسلامی اقدار کو بدنام کرنے کی ہر چہار جانب کوششیں جاری ہیں۔مذہب اسلام نے تشدد و دہشت گردی کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور امن وسلامتی کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے۔ اسلام کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا ظلم وتعدی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ظلم کا بدلہ تو لیا جاسکتا ہے، لیکن اگر مظلوم تجاوز کرگیا تو وہ بھی ظالم کی صف میں آجائے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:
اوران سے اللہ کی راہ میں لڑوجو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو نہیں پسند کرتا ۔(البقرۃ:۱۹۰)
اسی سورت میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی باخبر کردیا کہ بدلے کا معیار کیا ہونا چاہیے، ارشاد ہے:
جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جو تم پر کی اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(البقرۃ:۱۹۴)
یعنی بدلہ لیتے وقت یہ بات ملحوظ رہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اس کی گرفت بہت سخت ہے۔ دہشت گردی اور تشدد کے سلسلے میں اسلام کا موقف بالکل صاف اور واضح ہے کہ اسلام قتل ناحق کا مخالف ہے، جس کی وعید قرآن کریم کچھ اس طرح بیان کرتا ہے:
جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ:۳۲)
اسی طرح اللہ کے رسول کا ارشاد ہے:
اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی کو قتل کرنااور والدین کی نافرمانی کرنا اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔ (البخاری)
آج اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمان پوری کائنات میں اپنی دہشت گردی کے ذریعہ اسلام پھیلانا چاہتے ہیں، جبکہ قرآن نے خود اُن کے ان باطل افکار کی تردید کی ہے۔
اسی طرح قرآن کریم دوسرے مقام پرارشاد فرماتا ہے:
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، سیدھی راہ غلط راہ سے الگ ہو چکی ہے۔ ( الانعام:۱۰۸)
اسلام مذہبی عقائد اور اشاعتِ دین کے سلسلے میں نہایت انسان دوست اور بردبار ہے، جبراً کسی پر بھی کوئی چیز تھوپنے کی یا حلق سے اُتارنے کی کسی کو اجازت نہیں دی ہے۔ اگر اسلام کا نام لے کر کہیں اور کبھی کوئی بھی دہشت گردی یا تشدد کا مظاہرہ کرتا ہے تو حقیقت میںوہ مسلمان نہیں ہے، بلکہ مذہبِ اسلام سے ایک انحراف اور شریعتِ محمدیہ میں ایک تحریف کا فعل بد ہے، جسے شریعتِ اسلامیہ کے بدترین استحصال پر محمول کیا جائے گا۔ اسلام اذیت پسندی اور فساد انگیزی کا روادار نہیں۔ اسلام میں صرف مسلم معاشرہ کے اندر کسی بھی اختلاف کو ختم کرنے کے سلسلے میں تشدد سے کنارہ کشی کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح یا ایک خطے یا سرزمین پر رہنے والے مختلف مذاہب وادیان کے لوگوں کے ساتھ بھی اعلیٰ درجے کے حسنِ اخلاق کی ہدایت دی ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتا ہے:
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(الممتحنۃ:۸)
مذ ہب اسلام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور ظالم کے روبرو حق کہنے پر زور دیا ہے اور اُسے ایک حقیقی مومن کا ضروری وصف قرار دیا ہے۔ اسلام نے جہاں انسانی جان کی حرمت کا اعلان کیا ہے وہیں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ فتنہ وفساد برپا کرنے اور انسانوں کا خون بہانے والوں کو معاف بھی نہیں کیا جاسکتا، ارشاد ہے:
پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابربرائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا۔(الزلزال:۷،۸)
اس کے باوجود دورِ حاضر میں جب بھی دہشت گردی موضوع بحث بنتی ہے، مغربی دانشور بالعموم اسلامی تحریکوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اور بالخصوص فرشتہ صفت علماء اسلام نشانہ بنائے جاتے ہیں، جبکہ قرآن صریح لفظوں میں بیان کرتا ہے:
اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، واقعی اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے۔(الفاطر:۲۸)
دہشت گردی ایک وحشیانہ فعل ہے اور اسلام کے تہذیبی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام انسان کو صرف خدا کا خوف دلاتا ہے، لہٰذا وہ کسی انسان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ لوگوں کو اپنا خوف دلائے اور اُنہیں خوف زدہ کرکے اپنے اَغراض و مفادات حاصل کرے۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب محمد کومخاطب کرتے ہوئے حکم دیا:
پس آپ نصیحت کردیا کریں (کیونکہ)آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر داروغہ نہیں ہیں۔(الغاشیۃ:۲۱،۲۲)
معاشرے میں کشیدگی اسلام کو گوارا نہیں، وہ تو ہر قسم کی کشمکش اور چپقلش ختم کرکے ایک پر امن ماحول میں افراد کے درمیان الفت ومودت اور فلاحی کاموں میں اشتراک وتعاون کے مواقع پیدا کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ ارشادہے:
اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔(آل عمران :۱۰۳)
تا کہ بندگانِ خدا یکسوئی کے ساتھ اپنی اور کائنات کی تخلیق کے مقاصد کی تکمیل میں بے روک ٹوک مشغول ہو جائیں۔ دنیا میں اخلاص اور خدا ترسی کے ساتھ نیک اعمال کرکے آخرت کی کامیابی کا سامان مہیا کریں اور اللہ تعالیٰ کی اس بشارت کے مستحق قرار پائیں:
تو جو میری راہ پر چلا تو ان پر کوئی ڈر یا غم نہیں۔(البقرۃ:۳۸)
حاصل کلام یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ، روایات اور مزاج اس بات کے گواہ ہیں کہ اس نے کبھی دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دی ہے اور دنیامیں جو اس نے عظیم انقلاب برپا کیا وہ اپنے اخلاق حسنہ کے زور پر کیا ہے، جسے ہم صالح اور پر امن انقلاب کا عنوان دے سکتے ہیں۔