اسلامی احکام سے اتفاق اور امن کا پیغام

اکبر حسین اورکزئی

امن و اتفاق اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے.انسانی زندگی خواہ انفرادی ہو یااجتماعی، اس کی تعمیر وترقی اور خوش حالی کے لیے امن وسلامتی اور اتفاقِ باہمی بے حد ضروری ہے، اس کے بغیر تعمیر وترقی اور خوش حالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔آج کی سامانِ عیش و اسباب ِضرورت و سہولت سے بھری دنیا میں اگرکمی ہے توان ہی دو چیزوں کی، اور عجیب بات یہ ہے کہ دونوں لازم ملزوم ہیں(۱) اتفاقِ باہمی (۲)امن و سلامتی ۔

حالانکہ دنیا والوں کو سب سے زیادہ ان ہی کی ضرورت،طلب اور تلاش ہے،جس کے لیے دنیا بھر میں انفرادی واجتماعی اور ملکی و بین الاقوامی طور پر مختلف تجاویز وتدابیر کی جاتی ہیں،لیکن اس کے باوجود قابلِ ذکر کوئی ثمرہ اور نتیجہ نظر نہیں آتا، حالات و حقیقت پر جن کی گہری نظر ہے انہیں اس کا پورا پورا احساس ہے ۔ اس سلسلہ میں بنیادی طور پر اس حقیقت کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ امن و اتفاق صرف مادی اور دنیوی اصولوں کی بنا پر نہیں، بلکہ دینی واسلامی اصولوں کی بنا پرحاصل ہوتا ہے،اس لیے جب تک دنیا کے باشندے دین حق کی تعلیمات وہدایات کو نہیں اپنائیں گے،تب تک نہ اتفاق کی صحیح فضا قائم ہو سکتی ہے، نہ امن حقیقی نصیب ہو سکتا ہے، اور دین حق وہی ہے جو دنیا کے خالق و مالک کے نزدیک پسندیدہ و مقبول ہے،قرآن جو دنیا کے خالق و مالک کا کلام ہے اس نے اس بارے میں اعلان فرمایا ہے

بلا شبہ دینِ اسلام ہی اللہ کے نزدیک مقبول اور پسندیدہ دین ہے۔

امن وآشتی، صلح و سلامتی اور اتفاقِ باہمی دین اسلام کی بنیادی ہدایات و تعلیمات میں سے ہیں، جس کی ایک آسان مثال ہماری روز مرہ کی زندگی میں سلام ہے،جس میں اتفاقِ باہمی اور سلامتی کا بڑا پیغام ہے، نیز اسلام کے عقیدۂ توحید و رسالت میں بھی امن و اتفاق کا زبردست پیغام ہے ۔اسلام اپنے نام اور احکام سے امن و اتفاق کا پیغام دیتا ہے بلکہ اس کے آگے کی بات یہ ہے کہ اگردنیا میں کوئی ایسا دین ہے جو اپنے نام اوراحکام دونوں میں امن و اتفاق کا معنیٰ اور پیغام رکھتا ہو تو وہ اسلام ہی ہے، امن و سلامتی تو اس کے خمیر میں داخل ہے کہ اسلام کا یہ عربی لفظ سِلْمٌ سے، توایمان امن سے بنا ہے، جس کے معنیٰ امن و سلامتی کے آتے ہیں، تو اسلام نے اپنے نام اوراحکام دونوں سے انسان کو اتفاق و امن کا پیغام دیا ہے،اور اس کے لیے ایسے قانون پیش کیے جن پر عمل کرنے سے انسانی زندگی دنیوی اور اخروی دونوں اعتبار سے پر امن و پرسکون اور پر وقار ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حدیثِ بالا میں زندگی گذارنے کا ایک اسلامی قانون پیش فرمایا گیا کہ

اسلام میں نہ ضرر ہے، نہ ضرار

مطلب یہ ہے کہ نہ خود نقصان اٹھاؤ، نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ۔ خود جیو اور دوسروں کو جینے دو۔ کتنی جامع حدیث ہے ؟ درحقیقت یہ حدیث آیت کریمہ

نہ تم کسی پر ظلم کرو اورنہ تم پر ظلم کیاجائے

کی تفسیر وتشریح ہے۔

حضرات محدثین کے نزدیک اس کا جوامع الکلم میں خاص مقام ہے،اس لیے کہ بظاہر تو یہ دو مختصر لفظ ہیں، لیکن امن واتفاق،معانی ومطالب اور احکام و مسائل کے انبارکو یہ شامل ہے، اس کا پہلا جملہ: لَاضَرَرَ یہ کمالِ عقل کی علامت ہے،یعنی دینی و دنیوی اعتبار سے نہ خود نقصان اٹھاؤ،اور دوسرا جملہ: وَلَا ضِرَار کمالِ ایمان کی علامت ہے کہ دوسروں کو بھی(بلاوجہ) نقصان نہ پہنچاؤ !نہ نقصان اٹھانے کو روا رکھا ہے، نہ نقصان پہنچانے کو جائز کہا گیا، یعنی آدمی نہ مظلوم بنے، نہ ظالم،اس پیغام کا منشا یہ ہے کہ معاشرہ اورسماج کا ہر فرد امن و سلامتی سے رہے اور ظلم و زیادتی سے بچے، اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگ اسلامی ہدایات کے مطابق اتفاقِ باہمی سے رہ کر ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور حسن سلوک بھی کریں۔اسلامی احکام و قوانین میں اس کی خصوصی تاکید باربار کی گئی کہ خود بھی امن و سلامتی سے رہو،دوسروں کو بھی امن و سلامتی کے ساتھ رہنے دو، خود بھی نقصان نہ اٹھاؤ ! دوسروں کو بھی نقصان نہ پہنچاؤ !حدیث مذکور میں اسلام کی اس بنیادی و قانونی تعلیم کے علاوہ اسلام کی اعلیٰ اور اخلاقی تعلیم تو یہاں تک ہے کہ لوگو! امن وسلامتی اپنی پہچان بنالو !ا س طرح کہ تم اپنی انفرادی زندگی میں نقصان پہنچانے والوں کو بھی (جب کہ ان کے خیر پر آنے کی امید ہو)نفع پہنچاؤ،اور ستم کرنے والوں کے ساتھ بھی کرم کا معاملہ کرو ! سچے مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہی طرزِ عمل اور رویّہ رہا ہے،جیسا کہ اسلامی سنہری تاریخ اس کی شاہد ہے۔