اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت
یمنیٰ اقبالصحرائے عرب میں جہالت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے لئے فاران کی چوٹیوں سے وہ آفتاب نمودار ہوا کہ جس نے دنیا کو امن و آتشی اور صلح و محبت کا پیغام دیا پھر قدرت نے عرب کی ریت کے ذروں کو ستاروں کی سی چمک عطا کی اور انہیں دنیا کے تاریک ترین گوشوں میں بکھیر دیا۔
مسلمانوں کی اس دنیا میں ترقی کی رفتار بہت زیادہ اس لئے تھی کیونکہ انہوں نے تمام قوانین کو اور تمام اخلاقی، سماجی و سیاسی اصولوں کو فطرت کے عین مطابق ڈھالا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ظلم و تشدد کو ختم کر کے دنیا کو امن و آتشی کا پیغام سنایا۔
عدم تشدد کے لحاظ سے سب سے پہلے جس چیز کا تذکرہ آتا ہے وہ ہے انسانی جان کی وقعت۔ انسانی جان کے اسی احترام کے باعث انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر ہے اس کی پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے۔ تمدنی حقوق میں اولین حق زندہ رہنے کا حق ہے اور اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ اسی لئے دنیا میں جتنے مکاتب فکر موجود ہیں ان میں عدم تشدد اور احترام نفس کا یہ اخلاقی اصول موجود ہے۔
اس نقطہ نظر سے احترام نفس جیسی موثر اور صحیح تعلیم اسلام میں دی گئی ہے وہ کسی دوسرے مذہب میں ملنی مشکل ہے۔ایسی موثر تعلیم کےباعث عرب جیسی خونخوار قوم کے اندر احترامِ نفس اور امن پسندی کا ایسا مادہ پیدا ہو گیا تھا کہ رسول ﷺ کی پیش گوئی کے مطابق صنعاے حضرموت تک ایک عورت تنہا سفر کرتی تھی اور کوئی اس کی جان و مال پر حملہ نہ کرتا تھا۔ حالانکہ یہ وہی ملک عرب تھا جہاں 25 برس پہلے بڑے بڑے قافلے بھی بےخوف نہیں گزر سکتے تھے پھر جب مہذب دنیا کا آدھے سے زیادہ حصہ حکومت اسلامیہ کے پاس آ گیا اور اسلام کے اخلاقی اثرات چاروں جانب عالم میں پھیل گئے تو اسلامی تعلیم نے انسان کی بہت سی غلط کاریوں اور گمراہیوں کی طرح انسانی جان کی اس بے قدری کا بھی استحصال کر دیا جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔
انسانی جان کے احترام کے بعد عدم تشدد ہمارے سامنے جس پس منظر میں آتا ہے وہ ہے ذہنی و جسمانی تشدد سے معترض رہنا۔ اسلام نے دنیا کے تمام انسانوں کو جینے کے یکساں حقوق سے نوازا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کو ایک ایسی زندگی گزارنے کا ضابطہ بھی بتایا ہے کہ جس میں کوئی جبر، تشدد یا فطرت کے خلاف کوئی کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن میں ارشاد فرمائی ہے کہ
اس آیت سے وہ تمام شکوک و شبہات مٹ جاتے ہیں کہ شاید اسلام کے دئے گئے قوانین ایسے ہیں جو فطرت انسانی پر ظلم یا دوسرے لفظوں میں وہ قوانین انسانی فطرت برداشت نہیں کر سکتیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو رحمن ہے، اس کے بتائے ہوئے طریقوں میں کسی نہ کسی طریقے سے ہمارا ہی فائدہ ہے۔ ہمیں کیا چیز نقصان پہنچا سکتی ہے یا کون سا کام ہماری فطرت کے خلاف ہے اور ہم پرتشدد ہیں تو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کیونکہ ہم لوگ اسی کی تخلیق ہیں۔
دین میں کوئی جبر نہیں۔ (البقرہ256)
اس کی بہترین مثال ہمیں نبی اکرم ﷺ کے مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان کا اصول تو موجود تھا مگر نبی کریم ﷺ نے احسن اس بات کو مانا کہ معاف کر دیا جائے۔ چھوٹے بڑے معاملات میں عفو و درگزر کرنے کی ہدایت کی گئی اور اسلام میں عدم تشدد کی اہمیت یہاں تک ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہؓ کے قاتل تک کو معاف کر دیا۔ جھگڑے کھڑے
ہوئے مگر صلح کرا دی گئی اور آج اس حقیقت کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا کہ اسلامی معاشرے میں جو اخلاقی فضائل پیدا ہوئے ہیں، سیاسی و سماجی جتنے بھی قوانین بنے ہیں وہ فطرت سے قریب تر ہیں ، جس کی سب سے بڑی وجہ اسلام میں تشدد کی عدم موجودگی ہے۔