جب جھوٹی بات کو پَر لگ جائیں اور سچ لنگڑاتا ہوا پہنچے

وقاص علی

۲۱ صدی کے سماجی اور سیاسی منظرنامے میں سوشل میڈیا پر ’سچ کی تلاش‘ ایک جدید اور انوکھا چیلنج بن چکا ہے۔

جھوٹی خبریں پَر لگا کر اُڑتی پھر رہی ہیں اور بے چارہ سچ لنگڑاتا ہوا کونے کھدرے سے نمودار ہوتا نظر آتا ہے۔ فیس بک کی نیوز فیڈز اور ٹوئٹر نے روایتی میڈیا کے طرزِ معیار میں بھونچال اور عوام کی ترجیحات میں انقلاب برپا کردیا ہے، اسی ہنگامہ خیزی میں لوگ جھوٹی خبر، سچی خبر اور آراء پر مبنی خبر’ کے مابین فرق تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود میڈیا بھی بعض اوقات اس فرق سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔

انفارمیشن کے موجودہ دور میں کسی شخص یا ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے جوہری ہتھیار یا عسکری قوت کی ضرورت نہیں بلکہ اب تو محض سوشل میڈیا پر ’جعلی خبریں‘ ہی اسٹاک ایکسچینج کو گھٹنے ٹکانے، مملکت کے سربراہان یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کو ہاتھ جوڑ کر وضاحتیں دینے پر مجبور کرسکتی ہیں۔

انٹرنیٹ کی تہلکہ انگیز دنیا میں جعلی خبر کا لفظ اتنی مرتبہ استعمال ہوا کہ آسٹریلین ڈکشنری نے اس لفظ کوword of the year 2016 قرار دیا۔

جھوٹی خبر میں پوشیدہ جذبات

جھوٹی اور سچی خبر کے اندر پوشیدہ انسانی جذبات خبر کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ تصور کیے جاتے ہیں،مثلاً جھوٹی خبر میں خوف، حیرانی اور نفرت جبکہ سچی خبر میں عمومی طور پر افسردگی، خوشی، پیش گوئی اور اعتماد کے پہلو ہوتے ہیں۔ سچی خبر کے پہلو ہمیں اکثر و بیشتر سطحی محسوس ہوتے ہیں اور پُرکشش نہیں لگتے، لہٰذا ہماری زیادہ دلچسپی بھی حاصل نہیں کرپاتے۔

میڈیا پر عدم اعتماد

جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں توجہ طلب پہلو ’عدم اعتماد‘ کا ہے اور اسی کی آڑ میں بات کہی اور اُڑائی جاتی ہے جو ناقابلِ یقین حد تک توجہ حاصل کرلیتی ہے۔

ایسی متعدد تحقیق موجود ہیں جن میں سائنسی بنیادوں پر یہ ثابت ہوا کہ میڈیا اپنے مالی اور نظریاتی مفاد کی خاطر حالات اور واقعات کو ‘خاص نکتہ نظر یا ’اینگل‘ سے پیش کرتا ہے۔ جب میڈیا نے فرائض اور ضابطہ اخلاق سے روگردانی شروع کی تو اس کے خلاف منفی رائے عامہ نے بھی بتدریج جنم لینا شروع کردیا۔

اسی دوران سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی ایک اضافی صنف بن کر ابھرا، جہاں اول تو یہ کہلکھنے اور نشرکرنے والا خود مختار ہے، عام شہری آزادانہ طور پر اپنے اور دوسرے کے نظریات، طرزِ معاشرت، سوچ اور مسائل پر بات کرکے لاکھوں لوگوں کی توجہ حاصل کرلیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی بات، تصویر اور ویڈیو ہمیشہ موجود رہتی ہے چنانچہ اس کا پھیلاؤ بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔

جب لوگوں کو اپنے مسائل کا حل روایتی میڈیا (ٹیلی ویژن، اخبار، ریڈیو) کے بجائے سوشل میڈیا میں نظر آنے لگا تو یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

جب روایتی میڈیا عوام کی نظروں میں عدم اعتماد کا شکار ہوا تب جعلی خبروں کے ذریعے ’خاص نوعیت کے اہداف‘ حاصل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ایک ملک دوسرے کے خلاف اقتصادی سائبر کرائم میں مصروف ہوگیا، ایک شخص ذاتی عداوت کے تحت دوسرے شخص کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی باتیں سوشل میڈیا پر پھیلانے لگا۔

ایک جھوٹی خبر

منسوب ایک خبر کی تصویر خوب وائرل ہوئی جس میں افغانستان کے قومی سلامتی مشیر حنیف اتمر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر کے ساتھ خبری انداز میں دعویٰ کیا گیا کہ ‘افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرلیا۔‘ جس کسی کو ڈیورنڈ لائن کے تنازعے کا علم ہے، اس کے لیے یہ خبر کافی حیران کن تھی اور اس خبر کے ساتھ ڈان نیوز کا ‘لوگو’ دیکھ کر لوگوں کو گمان بھی نہیں گزرا کہ یہ خبر جھوٹی بھی ہوسکتی ہ

ڈیورنڈ لائن سے متعلق وائرل جھوٹی خبر کے آفٹر شاکس افغانستان میں بھی محسوس کیے گئے اور افغان قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) نے پریس ریلیز جاری کی جس میں انہوں نے خبر کی تردید کی۔

واقعات کے بہاؤ اور ترتیب میں جھوٹی خبر کے مصدقہ کہلانے اور پھیلنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن سے متعلق جھوٹی خبر 22 جون کو وائرل ہوئی لیکن تقریباً ایک ماہ قبل یعنی 27 مئی کو حقیقی/مصدقہ خبر نشر ہوئی کہ افغان سلامتی مشیر حنیف اتمر اسلام آباد کے دورے پر پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ (ر) جنرل ناصر خان جنجوعہ سے ملاقات کریں گے۔

متوقع ملاقات کے تناظر میں کوئی بھی ‘جھوٹی خبر’ سچ کا روپ دھار سکتی ہے۔