پاکستان میں پائیدار امن کی ترویج میں فن و ادب کا کردار

عصمت جبیں

دنیا کے سبھی معاشروں میں دیرپا بنیادوں پر داخلی امن و استحکام کو یقینی بنانے میں سماجی انصاف، قانون کی حکمرانی اور عام شہریوں میں معاشرتی تحفظ کا احساس کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن دیرپا بنیادوں پر امن و سلامتی کے حصول میں آرٹ اور ادب کے کردار سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ فن و ادب قارئین اور ناظرین کے طور پر عام شہریوں کے ذہنی اور جمالیاتی احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور انہیں جذباتی طور پر اپنے تفکرات اور پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ دکھاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بھی آرٹ اور لٹریچر امن و سلامتی کی ترویج اور سماجی ترقی کے عمل کو اس حد تک آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، جن کے وہ اہل ہیں۔ اس سوال کا ایک واضح جواب موجود تو ہے مگر خود اس جواب کے ساتھ بھی بہت سے سوالات جڑے ہوئے ہیں۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ فن و ادب قیام امن میں کس طرح معاون ہوتے ہیں، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ امن کیا ہے؟

، امن بنیادی طور پر تشدد کی عدم موجودگی کا نام ہے،یعنی تشدد، خوف اور جنگ کا نہ ہونا۔ حصول امن میں فن و ادب معاونت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ تنازعات کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔

امن آخر ضروری کیوں ہے؟ امن کی ضرورت اس لیے ہے کہ زمین پر انسانی آبادی لاتعداد قومی، نسلی اور لسانی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔امن وہ واحد ذریعہ ہے، جو سب کو جینے کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے اور ہر کسی کو اپنی اپنی مختلف رائے رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔

فن و ادب قیام امن میں کس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں؟ پہلے آرٹ کی بات کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر ایک شخصی اظہاریہ ہوتا ہے۔ اس کی کئی شکلیں اور روپ ہیں۔ وہ شاعری کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور پینٹنگز کی شکل میں بھی۔ پرفارمنگ آرٹ کی شکل میں بھی اور ویژوئل آرٹس کی شکل میں بھی، جس میں ڈرائنگ، پینٹنگ، مجسمہ سازی اور تصویر کشی وٖغیرہ شامل ہیں۔ ایپلائیڈ آرٹ میں فیشن ڈیزائننگ، آرکیٹیکچر، انٹیریئر ڈیزائننگ وغیرہ کو گنا جاتا ہے۔

فن تعمیرات اور انٹیریئر ڈیزائننگ کی مثال لے لیں، تو آرٹ کے ذریعے انسان اپنی رہائش کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو خوبصورت بنا سکتا ہے۔ یہ خوبصورتی اسے آرٹ ہی سکھاتا ہے۔ شور ہمیں پسند نہیں، لیکن موسیقی پسند ہوتی ہے۔ وہ بھی ایک شور ہے لیکن سر، تال، لے اور ردھم کی وجہ سے ہمیں پسند آتی ہے۔

فن ہمیشہ دل سے ہوتا ہے دماغ سے نہیں۔ جب اچھی چیزیں دل میں ہوتی ہیں، تو ان کا عملی نتیجہ آرٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جو متاثرکن بھی ہوتا ہے اور سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ ایک فوٹوگرافر اپنی ایک تصویر کے ذریعے پوری کہانی بیان کر دیتا ہے۔ تصویر بولتی ہے، دل کو چھوتی ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

فن و ادب اپنی ذات سے آگے نکل کر دوسروں کے مفاد کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور نرگسیت سےنکلنے میں مدد دیتے ہیں، تاکہ دوسروں میں بھی دلچسپی لی جائے، ان سے ہمدردی کی جائے اور ان کی خوشی میں خوشی محسوس کی جائے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کوئی خوشی سے رقص کر رہا ہوتا ہے، تو ہم خود اگر رقص کرنا شروع نہ بھی کریں تو اس رقص کو دیکھ کر ہی خوش ہونے لگتے ہیں۔

جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو وہ ہمیں ہمیشہ زندگی کی اصل سے بڑی تصویر دکھاتا ہے۔ آرٹ اور لٹریچر وقت کےقیدی نہیں ہوتے، وہ ہر دور اور ہر وقت کے لیے ہو سکتے ہیں۔حقیقی آرٹ غیر جانبدار ہوتا ہے، اسی لیے وہ تفرقات کو مٹا سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین لاکھ سیاسی اختلافات سہی، لیکن فن و ادب دونوں کے ایک دوسرےکے ہاں پسند کیے جاتے ہیں۔ آرٹ باہمی مشاورت کی ترویج کرتا ہے، اور اس طرح حصول امن اور ترقی میںمعاونت کرتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین لاکھ سیاسی اختلافات سہی، لیکن فن و ادب دونوں کے ایک دوسرےکے ہاں پسند کیے جاتے ہیں۔ آرٹ باہمی مشاورت کی ترویج کرتا ہے، اور اس طرح حصول امن اور ترقی میں معاونت کرتا ہے۔

ادب انسانی نسلوں کے مابین ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ یہ پل کا کام کرتا ہے۔ جو لوگ صدیوں پہلے زندہ تھے، ہم ان کی تصانیف آج بھی پڑھتے ہیں۔ شیکسپئیر ، ٹیگور اور منٹو کی تخلیقات پوری دنیا کے لیے ہیں، صرف ان زبانوں کے قارئین کے لیے نہیں، جن زبانوں میں ان شخصیات نے اپنی تخلیقات لکھیں۔ کیا یہ امن اور مفاہمت کی جانب ایک بڑا قدم نہیں؟ ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ فن و ادب ہمیں عالمگیریت بھی سکھاتے ہیں۔